Friday, March 28, 2014

سندھ کا معاملہ سنجیدہ توجہ کا طلب گار - طلعت حسین

تھر میں بچوں کی اموات کا بحران ابھی ختم نہیں ہوا تھاکہ ایک اور سیاسی اور انتظامی مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ جئے سندھ قومی محاذ کے قائد مقصود قریشی کی پراسرار ہلاکت نے اس جماعت کو نئے سرے سے اندرون سندھ کی سیاست میں مرکزیت دے دی ہے۔23 مارچ کو کراچی میں منعقد ہونے والا جلسہ شاید جئے سندھ کے اس دھڑے کی اپنی توقعات سے بھی کہیں بڑا تھا۔ اس سے پہلے جب بشیر قریشی کی موت کی خبر پھیلی تو اُن کے ساتھی تمام کوششو ں کے باوجود اس واقعہ کو سیاسی مقصد میں تبدیل کر نے سے قاصر رہے۔ اُس وقت یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ بشیر قریشی کو خفیہ ہاتھو ں نے زہر دے کر ہلا ک کر دیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹوں سے لے کر بعد از تدفین کی تحقیقات نے ان خدشات کو زائل کر دیا تب بھی سازش کی صدائیں ہونٹوں سے نکل کر کوٹھوں چڑھی رہیں۔ بہر حال بشیر قریشی جو اس جماعت میں انتہائی بااثر اور موثر لیڈر سمجھا جاتا ہے سیاسی شہادت کا وہ رتبہ نہ پا سکا جس کی وجہ سے یہ جماعت خود کو مقامی طور پر ہر کسی کی ہمدردی کی حق دار قرار دے پائی۔ مگر مقصود قریشی کی ہلاکت نے یہ کام کر دکھایا۔ اس وقت جسقم ایک انتہائی مضبوط اور مسلسل میڈیا مہم چلا رہی ہے جس کے ذریعے مقصود قریشی اور اُس کے ساتھی کی ہلاکت کو ریاست کے اداروں کے سربراہ پر بطور الزام تھوپا جارہا ہے۔
بادی النظر میں قتل کا یہ واقعہ عام نہیں لگتا بالخصوص اُس جلسے کے تناظر میں جو یہ جماعت سندھ کی آزادی کے نام پر کراچی میں منعقد کرنا چاہتی تھی۔ مگر چونکہ اُس نظام میں شفافیت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی لہذا عمومی تحقیقات کی کمزوریوں اور قائم علی شاہ کی حکومت کی بے اعتنائی نے اس الزام کو سچ میں تبدیل کرکے سندھ کے کونے کونے میں پھیلا دیا ہے۔ ظاہراً ملک کے چلانے والوں کو اس میڈیا مہم سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جسقم جی ایم سید کے زمانے کی جماعت نہیں ہے۔ سندھو دیش کا نعرہ دھڑے کی سیاست میں پھنس کر ٹوٹ چکا ہے۔ آزادی کی بات کرنے والے ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں بھی شریک نہیں ہوتے۔اندرکی لڑائی اتنی گہری ہوچکی ہے کہ ایسے نعروں کو حقیقت میں تبدیل کرنا تو دور کی بات حقیقت کے قریب لانا بھی ناممکن نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے مقصود قریشی کے جنازے پر جسقم جیسے نظریے رکھنے والی دوسری جماعتوں کے لیڈر موجود نہیں تھے۔مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افلاس اور غربت میں ڈوبے ہوئے اندرون سندھ کے اضلاع اپنی بے کسیوں کو گہری نفرت میں تبدیل کرنے کا بارود اپنے سینوں میں دبائے ہوئے ہیں۔ مقصود قریشی کے مارے جانے کے بعد 23 مارچ کے جلسے نے پرانے زخموں کو یک دم ہرا کر دیا۔
میرے موبائل فون میں سیکڑوں کی تعداد میں پیغامات موجود ہیں جن میں احتجاج کے تمام رنگ نظر آتے ہیں۔احتجاج سے لے کر ننگی گالیوں تک سب کچھ بھرا ہوا ہے۔ اس قسم کے پیغامات یقینا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائے جاتے ہیں۔بہرحال پیغام دینے والوں کے مقاصد جو بھی ہوں پھیلانے والے حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ ان جیسے پیغاما ت کو آگے پہنچانا اُس نفرت کو گہرا ہونے کی دلیل ہے جس کا ذکر میں گزشتہ سطروں میں کر چکا ہوں۔ کراچی میں ہونے والے جلسے میں شرکاء کی بڑی تعداد نے جسقم کی غیر معمولی طور پر بڑھتی ہوئی سیاسی استطاعت کو بھی ثابت کیا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ کارکردگی واقعی ہو اور مقصود قریشی کی قبر وہ سیاسی مزار نہ بن سکے جہاں پر آنے والوںکا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں پراسرار اموات کی تاریخ بڑی طویل ہے۔اتنی ہی لمبی داستان اُس قومی حافظے کی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ا ن واقعات کو بھول جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی غلط فہمی نہ ہوگی کہ جسقم کی قیادت کے ساتھ ہونے والے اس واقعہ کے صرف وقتی اثرات پیدا ہوئے ہیں۔
مختلف پارٹیوں اور دھڑوں کے نعروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ سندھ کی زمین ایک بن ماں کے بچے کی طرح ہے۔ بیسیوؤں سال کی بدعنوان حکومتوں نے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں پر گہرے گھائو لگائے ہیں۔ روزانہ کی نہ ختم ہونے والی ضرورتیں وہ نمک پاشی ہے جس نے برداشت کا مادہ ختم کر دیا ہے۔نہ انصاف ہے اور نہ زندگی کو بہتر بنانے کا موقع ،ایک طرف جابر جاگیردار ہے تو دوسری طرف شہروں میں رہنے والے سلطانی قاتل۔نہ گائوں میں سکون ہے اور نہ شہروں میں راحت کا کوئی ذریعہ مہیا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بے نظیر بھٹوکے جانے کے بعد پیپلز پارٹی نے جس سنگ دلی سے سندھ کے وسائل کو اپنی قیادت کے طمع کی نذر کیا ہے اُس کے بعد وہ اعتماد ریزہ ریزہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جس کے توسط سے شہری خود کو ریاست کی اطاعت پر مائل کرتے ہیں۔سندھ کے قوم پرست تنقید میں ماہر ہیں اور فلسفہ فرفربولتے ہیں مگر لوگوں کے مسائل کا ذریعہ نہیں بنتے۔یہ وہ ماحول ہے جس میں قدرتی موت سازش، حادثہ قتل اور قتل شہادت میں تبدیل کرنا انتہائی آسان ہے۔
مقصود قریشی کی موت نے اُس چنگاری کو ہوا دے دی ہے جو بہت عرصے سے سرد ہو چکی تھی۔اس کو بھڑکانے میں سندھ حکومت کی خاموشی  بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کے لیے تو اقوام متحدہ کا کمیشن بنا دیا گیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس قتل پر کم ازکم کوئی انتظامی یا عدالتی تحقیقاتی کمیٹی ہی قائم کر دی جاتی۔ اس طرح اُس عمل کا آغاز ہی ہو جاتا جس کو حوالہ بنا کر بھڑکے ہوئے جذبات کو قابو میں لایا جا سکتا۔باقی کسر پاکستان کے ذرایع ابلاغ نے پوری کردی۔ بات پسند یا نا پسند کی نہیں ہے۔کراچی کے بیچ ایک بڑا جلسہ ہوا تھا ایک جماعت کی طرف سے سنجیدہ الزامات لگائے جارہے تھے۔ان واقعات کو بطور خبر اہمیت دی جانی چاہیے تھی جو نہیں دی گئی۔لہذا یہ معاملہ ان مقامی میڈیا نے ایک نصب العین کے طور پر اٹھا لیا ہے۔ہر طرف ہائے ہائے،ظلم،جبر،بے انصافی کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔دوسری طرف حکومت ہے کہ ایک لفظ نہیں بول رہی۔ ریاست اپنے کاموں میں لگی ہوئی ہے اور قومی ذرایع ابلاغ یوں ظاہر کر رہے ہیں کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔

Courtesy by Daily Express 

بدھ 26 مارچ 2014
http://www.express.pk/story/239521/

No comments:

Post a Comment